Viral Content




آج کل کے حالات میں سوشل میڈیا سمیت ہر طرف ایک شدید قسم کی مایوسی کا چھڑکائو جاری ہے۔ لوگوں کے حوصلے توڑ کر، ان کی امیدوں کے چراغ بجھا کر، انہیں زندگی سے دور کر کے ہم کون سی خدمتِ خلق کر رہے ہیں؟ 
بجائے اس کے کہ انہیں مایوس کریں ہم انہیں حالات کے مقابلے کےلئےتیار بھی توکر سکتے ہیں۔ 
کورونا نے صرف پاکستان کی معیشت کو متاثر نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے طاقتور ملکوں کی معیشت اس کے سامنے منہ کے بل گر پڑی۔ 
اس منجدھار سے ہم نے مل کر خود کو اور ملک کو نکالنا ہے۔ 
یہ ملک صرف حکومت کا نہیں ہے نہ ہی اپوزیشن کا ہے، یہ بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے، 
یہ ہم سب کا گھر ہے، ہم نے اس وقت تماشہ نہیں دیکھنا اپنے اپنے میدان میں کوشش کرنی ہے، 
اپنی صلاحیتوں کے مطابق جو ہم بہترین کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا چاہئے۔
ہمیں اپنے علم اور اج کے دور کے حوالے سے مختلف طریقہ اپناناھے۔

اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ ذہن کے پردے پراب تک ایک افریقی ضرب المثل رقم ھے۔

ضرب المثل ھے۔"جب تک شیر لکھنا نہیں سیکھ لے گا۔اس وقت تک ہر داستان شکاری کی شان و شوکت بڑھائے گی 

وقت کےساتھ  یہ افریقی ضرب المثل ایک بھرپور فعال زندگی گزارنے کےلئےمیرے دل میں اُترتی چلی گئی۔ 
اس کے معانی پر غور کیا تو ایک جہانِ تعبیر و تشہیر کھلتا چلا گیا۔ آج کل کورونا نے ویسے ہی محصور کر رکھا ہے۔ 
طبیعت پر کبھی کبھی تنہائی یکبارگی حملہ آور ہوجاتی ہے۔ 
بہت سے ہنگاموں بھرے زمانے ذہن کے پردے پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔    اب بھی کبھی ملک کے اندر محفلیں سجتی ہیں۔اور کبھی امریکہ یورپ اور مشرق بعید کی ایسی تربیت گاہیں میسر آتی ہیں جو پاکستان کے حوالے سے ہمیں سوچنے اور اس کے مسائل کا جائزہ لینے کی طرف راغب کرتی ہیں۔
آور
پھر اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے ایک بھرپور آور فعال زندگی گزارنے کا موقع عنایت کیاھے۔ 
اس لئے
ان دنوں کتابیں آور فیس بک مستقل رفیق آور بہترین رہنمآ ہیں۔ 

 *پاکستان تو ایک نور ہے* 
 اس نور کی کرنیں اس لئے ہم تک نہیں پہنچ رہیں کیوں کہ نور کا زمین، ذہنوں، روحوں اور دلوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور پاکستان بننے کے بعد ہم نےجس طرح بنیادی مقصد اور نظریہ پاکستان کو فراموش کر دیا، حکومتوں اور اپوزیشن کے درمیان تنازعات، اداروں کی چپقلش جیسے مسائل پیدا ہوئے جس سےاس نور نے بھی اپنی چکاچوند سے ہمیں اس طرح منور نہیں کیا جس طرح ہونا چاہئے تھا۔ 
اس لئے اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ اس نور سے اپنی زندگیوں کو پر نور کریں اور دنیا میں ایک باوقار قوم بنیں جو معاشی طور پر آزاد ہو تو پھر ہمیں ان تمام تعصبات اور تقسیم سے ماورا ہو کر سوچنا ہو گا۔ 
یہ نہ سوچیں کہ حکومت کس کی ہے، یہ سوچیں کہ نظریہ پاکستان کیاھے-  
یہ ہمارا ملک ھے اور اس کو ہم نے سنوارنا ہے۔ 
اس کی پہچان ہماری پہچان ھے اور اس کو باوقار بنانا ہمارے ہاتھ میں ھے۔
ضرب المثل اب بھی رقم ھے۔
"جب تک شیر لکھنا نہیں سیکھ لے گا۔ 
اس وقت تک ہر داستان شکاری کی شان و شوکت بڑھائے گی‘‘۔

بیسویں صدی میں انسانوں اور قوموں کا شکار امریکہ اور یورپی ملکوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ 
یہ اپنے بحری جہازوں میں لشکر لے کر نکلتے تھے۔ 
پھر ان یلغاروں اور فتوحات کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں جو مغرب کی شان و شوکت کو ہمارے ذہنوں پر نقش کرتی تھیں۔انسانوں اور قوموں کے شکاری سب مغرب میں مقیم ہیں۔ 
اورشکار اب بھی جاری ہے۔ 
پرپاکستان ہمارا ملک ھے- مغرب کی شان و شوکت-یلغاروں اور* فتوحات کی کہانیاں یہاں نہیں لکھی جانی ھیں-

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی